مطالعہ کیوں کیا جائے، مطالعہ کیوں ضروری ہے ؟؟

تحریر …. ماہر تعلیم، پروفیسر مسز عابدہ فیاض (ریٹائرڈ پرنسپل)
آج کتاب پوچھتی ہے کہ مجھ سے گریزاں کیوں ؟ کہتے ہیں کہ اگر ہمیشہ جینا چاہتے ہو تو کتاب لکھو یا کوئی ایسا کام کرو کہ تم پہ کتاب لکھی جائے لیکن مجھ سمیت کروڑوں لوگ ہیں جو ان میں سے کسی بھی معیار پر پورا نہیں اتر سکے۔ کتاب ہے …. کتاب ہم ہیں ….. ہمارا ماضی ہے ….. ہمارا مستقبل ہے ….. کتابیں ہماری آنکھیں ہیں …. ہماری بینائی ہیں ….. جس سے ہم اپنے گذشتہ ادوار میں جھانکتے ہیں …. کتب ہمارے آباو اجداد ہیں جن سے ہماری کہانیاں سنتے ہیں جن کی قربت اور صحبت ہمیں محبت اور تحفظ دیتی ہے۔ کتاب تو پروردگار کی تحریر ہے، اسکی پہلی تخلیق ہے ….. کتاب ہی استاد ہے …. کتاب ایک نشہ ہے…. کتاب معاشرے کا حسن ہے۔

ایک چینی کہاوت ہے کہ ”جب آدمی 10 کتابیں پڑھتا ہے تو وہ 10 ہزار میل کا سفر کر لیتا ہے“۔ (گورچ فوک) کہتے ہیں ”اچھی کتابیں وہ نہیں جو ہماری بھوک کو ختم کر د یں بلکہ اچھی کتابیں وہ ہیں جو ہماری بھوک بڑھائیں ….. زندگی کو جاننے کی بھوک۔ اؤلس گیلیوس کہتے ہیں ”کتابیں خاموش استاد ہیں“۔ فرانس۔ کافکا، ”ایک کمرہ بغیر کتاب کے ایسا ہے جیسے ایک جسم بغیر روح کے“۔ (گوئٹے) ”بہت سے لوگوں کو یہ بات نہیں معلوم ہے کہ مطالعہ سیکھنا کتنا مشکل اور وقت طلب کام ہے، میں نے اپنے 80 سال لگا دیئے لیکن پھر بھی یہ کہہ سکتا ہو ں کہ میں صیح سمت کی جانب ہوں“۔ جین پاؤل، ”کتابیں ایک طویل ترین خط ہے جو ایک دوست کے نام لکھا گیا ہو“۔ (نو والیس) کتابوں سے بھری لائبریری ہی ایک ایسی جگہ ہے جہاں ہم ماضی اور حال کے دیوتاؤں سے آزادی کیساتھ گفتگو کر سکتے ہیں“۔ ایک جرمن قول، ”کتابیں پیالے کی مانند ہیں جن سے پانی پینا تمہیں خود سیکھنا ہو گا“۔ اور کتاب تخیل سے تشکیل پاتی ہے جبکہ ماضی اور پس منظر کا مطالعہ ہی ہمارے تخیل کو محفو ظ رکھ سکتا ہے یا اس کا انحطاط درست کر سکتا ہے۔ کتاب کی عدم موجودگی یا کمی سے معاشرہ اندھا ہو جاتا ہے، اپنے معاشرے کو اپنی دنیا کو اپنی آنیوالی نسلوں کو اس اندھے پن اور گھور تاریکی سے بچانے کیلئے ایک آخری کوشش کر لی جائے، کتاب کو اور کتب بینی کو زندہ کرنے کی۔ کتاب سے عشق از سر نو کیا جائے اور ٹوٹ کے کیا جائے۔ تاریخ اور تہذیب کا مطالعہ ہمیں عہد بہ عہد تصویریں دکھا تا ہے کہ انسان پہلے بھی ایسے اجتماعی اور انفرادی پاگل پن کا شکار ہوتے رہتے ہیں اور ہمیشہ سوچ، تخیل اور فلسفے نے ہی اسے دوبارہ اپنے پیروں پر کھڑا کیا۔ مطالعہ ہمیں انسانی دانش اور تجربے کے مجموعے سے منسلک کرتا اور پس منظر دیتا ہے۔ سوچیں اگر ہمیں یاد نہ رہے یا بھلا دیا جائے کہ صبح کیا کھایا تھا یا باپ، دادا کا نام کیا تھا تو کیسا محسوس ہو گا؟ یہی اصول

اقوام اور معاشروں پر بھی لاگو ہوتا ہے اور یہی مطالعہ کا مطمع نظر ہے کہ بطور ِ انسان ہم کتاب سے پیوست رہیں اور تخیل کی تخلیق اور اس کی آبیاری ہوتی رہے۔
ہم کیا کر سکتے ہیں ؟
اگر کتاب لکھ نہیں سکتے تو کم از کم کتاب کو پڑھیں اور کتابوں کو آنے والی نسلوں …. آنے والی صدیوں زمانوں کیلئے محفوظ کریں۔ لائبریریاں ہماری تہذیب کا شاندار ماضی ہیں، اس اثاثے کو محفوظ کریں، لائبریریاں آباد کریں۔ میں نیویارک کے جس علاقے میں رہتی ہوں یہ ایک چھوٹا سا خوبصورت قصبہ ہے۔ یہ ایک نہایت متحرک کمیونٹی ہے جو تعلیمی، طبی اور عوامی سہولیات سے مالا مال ہے۔ یہاں بہت سے سکول، کالجز اور یونیورسٹیز ہیں جن میں ان کی اپنی اپنی جدید سہولیات سے مزین لائبریریاں ہیں۔ مزید ہر علاقے (محلے) میں اس گلی کی الگ سے پبلک لائبریریاں ہیں۔ دلچسپ بات یہ کہ یہ لائبریریاں پاکستانی لائبریریز سے اس لئے مختلف ہیں کہ وطنِ عزیز میں تو لائبریری میں خاموشی شرط اول ہے جبکہ یہاں کی لائبریریز ایک ایسی جگہ ہے جہاں ہر شخص کچھ نہ کچھ سیکھتا ہے مثلاً بچوں کیلئے آرٹ کلاسز ہوتی ہیں۔ آرٹ کے مقابلہ جات منعقد کروائے جاتے ہیں۔ اس طرح بچہ بچپن سے ہی لائبریری مزاج ہو جاتا ہے۔ بزرگ خواتین کے آرٹ پینٹنگ ہوم ڈیکور وغیرہ کی نمائشیں ہوتی ہیں۔ خواتین لائبریری کے ایک حصے میں بیٹھ کے ہاتھ کی سلائی کڑھائی، میکرامے، کروشیا بننا جیسے کام ایک دوسرے سے سیکھتی ہیں۔ اور مل کے پراجیکٹ بناتی ہیں۔ مختلف قسم کے اجتماعی پروگرام بھی منعقد کئے جاتے ہیں …. میرے لئے یہ بات حیران کن تھی جب مجھے اپنے ایک کام کیلئے نوٹری پبلک سے تصدیق کی ضرورت پڑی تو معلوم ہوا کہ نوٹری پبلک کا آفس قریب ترین لائبریری میں ہے اور وہ خاتون وہیں ایک بڑی میز پر بیٹھی اپنا کام کر رہی تھی میں نے تو جو نتیجہ اخذ کیا وہ یہ تھا کہ لوگوں کو صرف لائبریری مزاج بنانے کیلئے یہ سب سہولیات فراہم کی جاتی ہیں۔ ان لائبریریوں کے علاوہ یہاں ایک اور لائبریری سسٹم بہت مقبول ہے ….. جسے ”لٹل فری لائبریری“ کہا جا تا ہے۔ نیویارک شہر میں 1,000 سے زائد چھوٹی لائبریریاں موجود ہیں۔ یہ لائبریریاں پارکوں، محلے کی گلیوں، سکولوں، اور کمیونٹی سینٹرز، بس سٹاپ، پارکس وغیرہ میں پائی جاتی ہیں۔ آپ وہاں بیٹھ کر وقتی طور پر کسی کتاب کا مطالعہ کر سکتے ہیں ….. آپ کو پسند آ جائے تو کتاب اپنے ساتھ لے جا سکتے ہیں اور اپنے پاس موجود کتب میں سے جو آپ کی ضرورت کہ نہ ہو وہ یہاں رکھ سکتے ہیں۔ یہ لائبریریاں لوگوں کو کتابوں تک آسان رسائی فراہم کرتی ہیں اور مطالعے کی عادت کو فروغ دیتی ہیں۔ ان میں اگرچہ محدود تعداد میں کتابیں ہوتی ہیں، لیکن یہ کتابیں معیار ی اور معلوماتی ہوتی ہیں۔ منی لائبریریاں اکثر رضا کاروں یا کتابوں کے شوقین افرا د کے

ذریعے چلائی جاتی ہیں۔ ان لائبریریز کے ذریعے لوگوں میں مطالعہ کا شو ق پیدا ہوتا ہے اور معاشرتی رابطے بڑھتے ہیں ….. یہ ہر شخص کی پہنچ میں ہوتی ہے۔ اگرچہ چھوٹی لائبریریوں یا ”لٹل فری لائبریریوں“ کا تصور قدیم زمانے سے موجود ہے۔ لیکن جدید شکل میں ان کی شروعات 2009ء میں (ٹوڈ پول) نامی ایک امریکی شہر ی نے کی۔ انہوں نے اپنے گھر کے سامنے ایک چھوٹی سی لائبریری بنائی۔ جسے ”لٹل فری لائبریری“ کا نام دیا گیا۔ یہ لائبریری ایک چھوٹے سے ڈبے پر مشتمل تھی، جس میں لوگ مفت کتابیں لے سکتے تھے اور اپنی کتابیں شیئر کر سکتے تھے۔ یہ تصور تیزی سے مقبول ہوا اور آج دنیا بھر میں 1,00,000 سے زیادہ ”لٹل فری لائبریریاں“ موجود ہیں۔ شنید ہے کہ پاکستان میں بھی یہ تجربہ کیا گیا مگر کامیاب نہ ہو سکا۔ لاہو ر میں لمز یونیورسٹی کے اندر یا باہر ایسی ہی لائبریری ہے۔
ہم کیسے شروع کریں ؟؟
اگر آپ اپنے محلے یا علاقے میں ایک منی لائبریری شروع کرنا چاہتے ہیں تو اس کیلئے آپ کو زیادہ وسائل کی ضرورت نہیں ہے۔ صرف چند کتابیں، ایک چھوٹی سی جگہ، اور لوگوں کو کتابوں سے جوڑنے کا جذبہ درکار ہے۔ آپ چاہیں تو اپنے دوستوں، رشتہ داروں یا محلے والوں سے کتابیں عطیہ کرنے کی درخواست کر سکتے ہیں۔
(آخر میں)
چھوٹی اور منی لائبریریاں معاشرے میں علم کی روشنی پھیلانے کا ایک چھوٹا سے قدم ہے ….. یہ نہ صرف لوگوں کو کتا بوں سے جوڑتی ہیں بلکہ معاشرے کو بہتر بنانے میں بھی اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ آئیں ہم سب ملکر اپنے ارد گرد علم کی روشنی پھیلائیں۔ آپ کے علاقے میں لائبریری کی سہولت عوا م کو کس حد تک میسر ہے، کتنی لائبریریاں آپ کے علاقے میں ہیں ….. کتنے سکول اور کالجز یا یونیورسٹیز ہیں کہ جن کی اپنی لائبریری ہے ….. آپ کے علاقے، کالج، سکول یا یونیورسٹی کی لائبریری میں کیا جدید سہولیات میسر ہیں اور کیا آپ متفق ہیں کہ لائبریریز کو فر وغ دیا جانا چاہئے؟؟ جواب کا انتظار رہے گا۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں