ہمار ا مقصد ان بچوں کوحقیقی خاندان کااحساس، تحفظ اورشاندار مستقبل دینا ہے۔ صوفیہ وڑائچ

صوفیہ وڑائچ …. چیئرپرسن ….. المرا فاؤنڈیشن
انٹرویو ….. عائشہ شفیق
جہاں اتنی مصروفیت ….. مسائل ….. ہلچل ….. اور افراتفری کے دور میں اکثریت لوگوں کی ایک دوسرے سے دور ہو چکی ہے ….. رشتوں میں محبتوں میں فاصلے بڑھ چکے ہیں ….. محبتیں ناپید ہوتی جا رہی ہیں ….. نفرتیں ، حسد، منفی سوچیں ، ایک دوسرے کی خوشی کو برداشت نہ کرنا جیسے خطرناک رویے ہمارے معاشرے میں پنپتے جا رہے ہیں۔ جہاں ایسے تپتے صحرا اور فکر انگیز ماحول میں ہمارے بچے، ہماری نسلیں پروان چڑھ رہی ہیں…… وہیں ایسے سایہ دار درخت اور چمکتے سورج اور روشن چاند کی طرح ….. ہمارے معاشرے میں خوبصورت لوگ موجود ہیں ….

جو اپنی شخصیت ا و ر اپنے عظیم کام کی بدولت ….. اسی گھٹن زدہ ماحول میں خوشگوار ہوا کا جھونکا ثابت ہو رہے ہیں …..اپنی روشنیوں کی بدولت معاشرے کو منور کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ جو بے سہارا …. یتیم بچوں کی نہ صرف پرورش کر رہے ہیں بلکہ انہیں لگرثری ماحول …… تما م تر آسائشیں اور اعلیٰ، شاندار سہولیات کیساتھ ان بچوں کی اعلیٰ تعلیم و تربیت کی ذمہ داریوں کو احسن طریقے سے نبھا رہے ہیں۔ ”المرا فاؤنڈیشن کی چیئرپرسن صوفیہ وڑائچ جس قدر دیکھنے میں حسین اور دلکش ہیں اس سے کہیں ز یادہ ان کی شخصیت اندر سے خوبصورت ہے ….. کیونکہ ان کی ان یتیم اور بے سہارا بچوں سے محبت اور عملی محبت دنیا سے ڈھکی چھپی نہیں ….. یوں تو پاکستان میں بیشمار ادارے اور مختلف این جی اوز بے سہارا بچوں کیلئے کام کر رہی ہیں۔ آ پ کسی دوسرے بچے کو اتنا پیار دے ہی نہیں سکتے ….. پھر صوفیہ وڑا ئچ کا ان بچوں کیساتھ نہ صرف سگی ماؤں جیسی شفقت اور محبت …. جس طرح صوفیہ وڑائچ اور ان کے خاوند ڈی آئی جی محبوب اسلم للہ ملکر ان بچوں کی تعلیم و تربیت اورتمام تر سیر تفر ویح اور ایک پر آ سائش سہولیات اور مضبوط اور روشن مستقبل کیلئے دن و رات تگ ودو کر رہے ہیں۔ وہ معاشرے کیلئے ایک مثال ہے۔ ہمیں بھی ”المرا فاؤنڈیشن“ کی چیئرپرسن میڈم صوفیہ وڑا ئچ کا خصوصی انٹرویو کرنے کا موقع ملا ….

ان کے شاندار، فکر انگیز خیالات آپ تک پہنچاتے ہیں جو نذر قا رئین ہے۔
س: المرا نام فاؤنڈیشن کا کیوں رکھا …… اس نام کے پیچھے کیا خاص آئیڈیا تھا ؟
ج:۔ یہ نام قرآنِ پاک کے حروف مقطعات …… ”الف، میم، اور را“ سے لیا گیا ہے، اسی لئے اس کا نام”المرا فاؤنڈیشن“ رکھا گیا ہے۔
س:۔ میڈم کیا سوچ کر اس کام کا آغاز کیا ؟

ج:۔ میں بچپن سے اپنے والد صاحب کو فلاحی اور سماجی کاموں میں مصروف دیکھتی آئی ہوں اور انہی کو دیکھتے ہو ئے میرے دل میں ہمیشہ یہ خواہش رہی کہ میں بھی کچھ ایسا کام کروں جو دوسروں کیلئے فائدہ مند ہو۔ خاص طور پر جب میں چھوٹے بچوں کو ورکشاپس میں کام کرتے یا سڑکوں پر بھیک مانگتے دیکھتی تھی….. تو مجھے بہت دکھ ہوتا تھا اور میں سوچتی تھی کہ مجھے ان بچوں کیلئے کچھ کرنا چاہئے۔ پھر جب اللہ تعالیٰ نے مجھے موقع عطا فرمایا تو ہم نے اس کام کا آغاز کیا۔
س:۔ میڈم! یتیم بچوں کی ذمہ داری تو بہت بڑی ذمہ داری ہے ….. کیسے نبھا پا رہی ہیں اس ذمہ دار ی کو ؟
ج:۔ میں سمجھتی ہوں کہ اس میں میرا کوئی بھی کمال نہیں ہے،

یہ سب اللہ تعالیٰ کی مدد سے ممکن ہو رہا ہے۔ جب اللہ تعالیٰ کسی سے کوئی نیکی کا کام لینا چاہتے ہیں ….. تو و ہ نہ صرف دل میں اس کا جذبہ ڈال دیتے ہیں بلکہ اس کو پورا کرنے کی ہمت، استطاعت اور وسائل بھی عطا کر دیتے ہیں۔
س:۔ آجکل کے دور میں اکثریت لوگوں کی تو اپنے گھروں میں کسی کو بلانا پسند نہیں کرتی ….. آپ نے ماشاء ا للہ سے اتنے بڑے کام کا بیڑہ اٹھا لیا ….. یہ سب کیسے ممکن ؟
ج:۔ یہ سب اللہ تعالیٰ کی مہربانی ہے، اللہ نے ہی ہمارے دل میں یہ نیکی ڈالی …… اور پھر کچھ نیک دل، مخلص لوگ ہمارے ساتھ آ گئے۔ ہم نے اس کام کی شروعات ایک فیملی کے طور پر کی تھی،

دل میں بس یہی نیت تھی کہ یتیم اور بے سہارا بچوں کیلئے کچھ کریں …… ا للہ تعالیٰ نے ہمارے ارادوں میں برکت دی اور وقت کیساتھ ساتھ کارواں بنتا چلا گیا اور اچھے لوگ جڑتے چلے گئے …… اور یہ کام بڑھتا گیا۔ ہم صرف وسیلہ ہیں، اصل کام تو اللہ ہی کروا رہا ہے۔
س:۔ آپ کسی دوسری فیملی کے بچے کو اتنا پیار نہیں کر سکتے ….. اور آپ ان بچوں کو سگی ماؤں جیسا اتنا پیار، شفقت، محبت اور ا تنا مثالی ماحول میں ان کی پرورش کر رہی ہیں ؟
ج:۔ میڈم صوفیہ نے اس کا جواب انتہائی خوبصورتی سے دیتے ہوئے کہا کہ جب میں ان بچوں کو دیکھتی ہوں تو مجھے کبھی اپنے بچوں اور ان بچوں میں کوئی فرق محسوس نہیں ہوتا۔ یہ اتنے معصوم ہیں کہ دل خود بخود ان کی طرف کھینچتا ہے …… بلکہ سچ کہوں اب تو مجھے یوں لگتا ہے جیسے ان بچوں کے ساتھ میں اور بھی زیادہ جڑ گئی ہوں، جیسے یہ میرے دل کا ایک حصہ بن چکے ہوں۔

ماں بننے کیلئے صرف خون کا رشتہ کافی نہیں ہوتا، دل سے جو تعلق بنتا ہے …… وہ سب سے مضبوط ہوتا ہے۔
س:۔ میڈم ان بچوں کا کوئی الگ سے ادارہ بنایا ہے یا اپنے گھر میں ہی ان کی رہائش کا انتظام کیا ہے ؟

ج:۔ اس وقت ہمارے پاس لاہور میں کیولری گراؤنڈ اور ڈیفنس کے علاقوں میں گھر موجود ہیں، جہاں یہ بچے رہائش پذیر ہیں۔ ہم نے بچوں کو مختلف گھروں میں اس طرح رکھا ہے کہ ہر جگہ ……. ایک گھر جیسا ماحول ہو۔ تاکہ وہ سکون، تحفظ اور محبت محسوس کریں۔ اس کے علاوہ تین نوزائیدہ بچے ہمارے اپنے گھر میں رہتے ہیں۔ ہمارا مقصد صرف گھر دینا نہیں بلکہ ایک حقیقی خاندان کا احساس دینا ہے۔
س:۔ میڈم یہ سب بچے یتیم ہیں یا لاوارث، گم شدہ اور کسی اور بے رحم حالات کے تحت آپ تک پہنچے ہیں ؟
ج:۔ اس خصوصی سوال کے جواب میں میڈم صوفیہ نے بتایا کہ ان بچوں میں سے زیادہ تر یتیم اور لاوارث ہیں …… کچھ بچے ایسے بھی ہیں جن کے والد یا والدہ میں سے کوئی ایک اگر زندہ بھی ہے

تو ان کے معاشی یا سماجی حالات اس قدر خراب ہیں کہ وہ ان معصوم بچوں کی کفالت نہیں کر سکتے نا ہی ان کو اپنا سمجھتے ہیں۔ ہر بچے کے پیچھے ایک الگ، دکھ بھری اور دل کو چھو لینے والی کہانی چھپی ہوئی ہے۔ کچھ بچوں کی داستانیں …… تو ا تنی درد ناک ہیں ….. کہ زبان سے بیان بھی نہیں کی جا سکتی ہیں۔
س:۔ ا ب تک کتنی تعداد ہے بچوں کی آپ کے پاس ؟
ج:۔ اس وقت ہمارے پاس 250 بچے اور بچیاں ہیں۔
س:۔ کسی بھی کام کو سوچنا اور اس پر عمل پیرا ہونا، کسی ذ مہ داری کو احسن طریقے سے نبھانا کافی مشکل کام ہے …… اس کام کو شروع میں آپ کو کن کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا …… اور یقینا ابھی بھی آپ کو بہت سے مسائل کا بھی سامنا ہو گا … بتائیں گی ؟
ج:۔ جب ہم نے یہ کام شروع کیا تھا تو ہمیں اندازہ نہیں تھا کہ یہ کام اتنے بڑے پیمانے پر پہنچ جائے گا۔ ابتداء میں کچھ لوگوں نے ہمیں مایوس کرنے کی کوشش کی، انہوں نے کہا کہ یہ بہت بڑی ذمہ داری ہے …… آپ اسے کیسے سنبھالیں گے؟ کچھ لوگوں نے یہاں تک کہہ دیا آپ یہ کام نہ کریں یہ آپ کے بس کی بات نہیں ہے۔ لیکن ہمارا یقین اللہ تعالیٰ پر تھا اور ہمیں یقین تھا کہ جب نیت نیکی کی ہو…… تو اللہ تعالیٰ خود راستے ہموا ر کر دیتا ہے۔ ہماری راہ میں جو بھی رکاوٹیں آئیں ….. وہ وقتی تھیں ….. ہم نے

ہر قدم پر اللہ تعالیٰ کی مدد محسوس کی۔ میڈم صوفیہ نے مزید کہا کہ میرا ماننا ہے کہ جب کوئی کام خلوصِ نیت سے …. نیکی کی نیت سے کیا جائے تو ا للہ تعالیٰ کی طرف سے رکاوٹ نہیں آتی …… بلکہ اللہ پاک خود ایسے لوگوں کا ساتھ دیتا ہے۔
س:۔ ان بچوں کے اخراجات، کھانا پینا، تعلیم اور دیگر اخراجات کیسے مینج ہو رہے ہیں ؟

ج:۔ جب ہم نے یہ کام شروع کیا تو ہم نے اسے اپنی فیملی کے لیول پر ہی شروع کیا تھا۔ تمام اخراجات ہم خود برداشت کرتے تھے، چاہے وہ کھانے پینے کے ہوں یا تعلیم کے۔ لیکن جیسے جیسے یہ کام پھیلتا گیا اور بچوں کی تعداد بڑھتی گئی، تو کچھ قریبی فیملی فرینڈز بھی ہمارے ساتھ شامل ہو گئے اور یوں ہماری ٹیم تھوڑی بڑی ہو گئی۔ اب ہمارا ادارہ بنیادی طور پر ڈونیشنز پر چل رہا ہے۔ جو بھی لوگ اس نیکی کے کام کا حصہ بننا چاہتے ہیں، وہ اپنی استطاعت کے مطابق مدد کرتے ہیں۔ میڈم صوفیہ نے گفتگو کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا

کہ تعلیم کے حوالے سے ہم نے اپنا ایک سکول قائم کیا ہے جس کا نا م ”المرا گرا ئمر سکول‘‘ ہے۔ ہمارے بچے بھی اسی سکول میں تعلیم حاصل کرتے ہیں اور علاقے کے وہ بچے جو اچھے سکول کی فیس افورڈ نہیں کر سکتے، وہ بھی یہاں بہت ہی کم فیس میں پڑھ رہے ہیں۔ ہم نے سکول کے معیار پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا، اور ہم فخر سے کہہ سکتے ہیں کہ المرا گرائمر سکول کا تعلیمی معیار کسی بھی بین الاقوامی معیار کے سکول سے کم نہیں ہے۔
س:۔ ہم سوشل میڈیا پر آپ کی ان بچوں کیساتھ انتہائی شاندار، خوبصورت اور متاثر کن ویڈیوز دیکھ رہے ہوتے ہیں، آپ نے ان بچوں کو شاہانہ لائف اسٹائل دیا ہوا ہے …… روٹین میں دوسرے ادارو ں میں اتنا آؤٹ کلاس ماحول شاز و نادر ہی دیکھنے کو ملے ؟
ج:۔ جی! اس کی وجہ بہت سادہ سی ہے …… یہ بچے اب ہمارے اپنے بچے ہیں۔ یہ ہمیں ’ ’ماں اور باپ“ کہتے ہیں، اور ہم بھی انہیں دل سے اپنا ہی سمجھتے ہیں۔ ہماری یہ کوشش ہے کہ جیسے ہم نے اپنے بچوں کو بچپن میں خوشیوں سے بھرپور زندگی دی۔ سیر و تفریح، اچھی خوراک، شاندار ماحول، مختلف جگہوں کا مشاہدہ…….. بالکل ویسے ہی یہ بچے بھی وہی محسوس کریں ….. وہی سیکھیں …..

وہی دیکھیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ یہ بچے بھی عزت، محبت اور خوشی کے اس ماحول میں پروان چڑھیں ….. جس کے یہ حق دار ہیں۔ ہمارا ماننا ہے کہ ایک بچے کی پرورش صرف کھانے، رہائش اور تعلیم سے نہیں ہوتی، بلکہ اسے محبت، اعتماد اور ایک مکمل زندگی کا تجربہ بھی دینا ہوتا ہے۔
س:۔ آپ ان بچوں کے مستقبل کو کیسا د یکھ رہی ہیں ؟
ج:۔ ایک ماں ہونے کے ناطے میری خواہش ہے کہ میرے تمام بچے مستقبل میں کامیاب اور با اعتماد فرد بنیں۔ اسی مقصد کے تحت ہم نہ صرف ان کی تعلیمی تربیت پر توجہ دے رہے ہیں بلکہ ان کی شخصی او ر پیشہ ورانہ راہنمائی کیلئے بھر پور اقدامات کئے جا رہے ہیں۔ ہم نے ایک ماہر نفسیات کی خدمات حاصل کی ہیں……. تاکہ بچوں کی دلچسپیوں اور رجحانات کو بہتر انداز میں سمجھا جا سکے۔ بچوں کو مختلف پیشوں سے متعارف

کروایا گیا۔ جیسے ہوا باز، فوجی، منصف وغیرہ۔ تاکہ وہ اپنی دلچسپیوں کے مطابق کوئی راستہ چن سکیں۔ ہر بچے کی دلچسپی کے مطابق اس کی مخصوص وردی میں تصویر بنوائی گئی اور وہ تصویر گھر میں لگائی گئی ہے۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ بچہ روز اپنی اس تصویر کو دیکھ کر حوصلہ حاصل کرے او ر اپنے خواب کو حقیقت میں بدلنے کی کوشش کرے۔ صوفیہ وڑائچ نے مزید کہا کہ میری دعا ہے اور کوشش بھی ….. کہ انشاء اللہ یہ تمام بچے اپنی پسند کے میدان میں نہ صرف جائیں بلکہ نمایاں کامیابی حاصل کریں اور پاکستان کیلئے ایک مفید شہر ی ثابت ہوں۔
س:۔ فیملی سپورٹ کے بغیر خاص کر ایک عورت کا کسی بھی ذمہ داری کو نبھانا کافی مشکل ہوتا ہے، آپ کو اپنی فیملی میں کس کس کی سپورٹ حاصل ہوئی، جس اعتماد اور خوبصورتی سے اس ”المرا فاؤنڈیشن“ کو چلا رہی ہیں ؟
ج:۔ شکر اللہ پاک کا، میں خود کو ہمیشہ سے اس حوالے سے بہت با برکت سمجھتی ہوں کہ مجھے ایک ایسے شوہر ملے ….. جنہوں نے ہر قد م پر میری حوصلہ افزائی کی اور ہمیشہ میرے ساتھ کھڑے رہے۔ ”المرا فاؤنڈیشن“ کے سلسلے میں بھی میرے سب سے بڑے معاون میرے شوہر ہی ہیں۔

ان کے بعد میرے بچے…… خاص طور پر میری بیٹی ماہ نور للہ جو کہ اس وقت ادار ے کی سربراہ ہیں ….. اس وقت ادارے میں میرے ساتھ موجود ہیں اور میرے شانہ بشانہ کام کر رہی ہیں۔ ہم سب اس ادارے میں بطور رضا کار کام کر رہے ہیں اور یہی خلوص اور جذبہ ہمارے مشن کی بنیاد ہے ۔ الحمد للہ….. مجھے اپنی فیملی کی مکمل حمایت حاصل ہے اور میں اس نعمت پر اللہ کا جتنا شکر ادا کرو ں …. کم ہے۔
س:۔ آپ کے خاوند محبوب اسلم اللہ ڈی آئی جی ہیں، یہ جاب تو بہت سخت جاب ہے۔ کہاں وہ سخت اور کٹھن جاب، اور یتیم بچوں کی کفالت میں ان کی شفقت، سپورٹ بھی، اور آپ کے اس نیک کام میں ان کی فل سپورٹ ؟
ج:۔ جی بالکل! وہ اپنی جاب کیساتھ اس ادارے میں میرا مکمل ساتھ دے رہے ہیں اور اس ادارے کی وجہ سے وہ لاہور سے باہر اپنی کوئی پوسٹنگ بھی لینے کو تیار نہیں ہوتے …… تاکہ وہ اس ادارے میں ہمارے ساتھ رہیں اور ہمیں سپورٹ کریں۔
س:۔ میڈم ! آپ کی خوبصورتی اور سمارٹنس کا کیا راز ہے ؟
ج:۔ خوبصورتی اور ذہانت کا راز بس یہی ہے کہ آپ مثبت سوچیں ….. آپ اچھا سوچیں ….. اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو ہی خوبصورت بنایا ہے، یہ آپ کی مثبت سوچ ہی ہوتی ہے جو آپ کو خوبصورت بناتی ہے…..

جیسا آپ سوچیں گے وہی کچھ آپ کے چہرے پر نظر آئے گا۔ دوسروں کیلئے ہمیشہ اچھا سوچیں اور ہر ممکن کوشش کریں کہ آپ کسی نہ کسی کے کام ضرو ر آ سکیں …… اور سمارٹنس کا راز یہ ہے کہ کم کھائیں جو کھائیں اچھا کھائیں ….. اللہ تعالیٰ کی قدرتی چیزوں کو کھائیں ….. پئیں تو آپ متوازن …… تندرست اور سمارٹ رہیں گے۔
س:۔ میڈم جی ! آپ معاشرے میں لوگوں کو کیا پیغام دینا چاہیں گی ؟
میرا پیغام معاشرے کے لوگوں کیلئے صرف ایک لفظ میں ہے ….. ”انسانیت“۔ جہاں تک ہو سکے اللہ کے بندوں کے کام آئیں …. مدد صرف پیسوں سے نہیں ہوتی …. کبھی کسی کو جذباتی سہارا دے دیں ….. آپ کی اپنی زندگی اس جہاں میں بھی کامیاب اور آخرت میں بھی۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں