بابو سر ٹاپ کی بے بس شام

بابو سر کی پرُخلوص وادیوں کی آخری پکار میں گہرا غم اور زندگی کا ماتم تھا …. جب لودھراں سے انہی وادیوں کے تعاقب میں آنے والا ہنستا بستا خاندان نے خوفناک سیلابی ریلوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھا …. اور دیکھتے ہی دیکھتے سیٹیاں بجاتے ….. پانیوں کے شور میں گم ہو گئے …. بہہ گئے …. اور کھو گئے۔ نہ جانے کتنے خوبرو انسان انہی پہاڑوں کے دامن میں کھو چکے ہیں …. یاد نہیں لیکن یہ ظالم پہاڑ اپنے اندر اتنی کشش رکھتے ہیں کہ لوگ پھر بھی کھینچے چلے آتے ہیں۔ مشعل اور سعد لودھراں میں ایک کالج اور ہسپتال کے مالک ہیں،

یہ لوگ خود ڈاکٹر تھے اور ہزاروں مریضوں کیلئے آخری امید ….. آسرا اور مسیحا تھے۔ لیکن زندگی کی شام کس قدر بھیانک، خوفناک اور بے بس ہوتی ہے ….. جس کا ا ندازہ انسان کو نہیں ہے۔ بابو سر ٹاپ پر فطرت کے انگنت مناظر کو کیمرے کی آنکھ سے محفوظ کرنے کے بعد موسم کی خوشگوار اداؤں سے محظوظ ہوئے …… اور بابو سر ٹاپ کی اترائی اترتے ہوئے …. ہنسی خوشی …. شاہراہ بابو سر کے میدانوں میں داخل ہوئے۔ اچانک موسم نے سنگین انگڑائی لی اور چھم چھم بارشوں کے بعد ہر نالے سے سیلابی ریلوں نے شاہراہ بابو سر کو اپنے حصار میں لے لیا اور

موت نے ان کا استقبال کیا۔ ڈاکٹر سعد، ڈاکٹر مشعل، بھائی فہد اور ان کا ننھا بیٹا سمیت خاندان کے تین ا فراد خوفناک ریلوں کی زد میں آ گئے۔ جبکہ سعد معجزانہ طور پر بچ گئے۔ لیکن بد قسمت آ نکھوں کا منظر وہ کیسے بھلا پائیں گے۔ جب بھائی، بیوی، ننھا شہزادہ اور خاندان کو ڈوبتے دیکھا ؟؟؟؟ یہ منظر کسی قیامت سے کم نہیں …. بس کیا کیجئے ۔۔۔ ہم بے بس ہیں قدرت کے آگے….. قدرت کا ہر فیصلہ اٹل ہے۔ شام کو یہ ڈوبتا منظر بے بسی کی تصویر تھی۔ اللہ تعالیٰ تمام مرحومین کو جوارِ رحمت میں جگہ عطا فرمائے اور پسماندگان کو صبر و جمیل عطا فرمائے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں